ماموں کی بیٹی کو چودا

بات ان دنوں کی ھے جب میں نے جوانی کی دھلیز پر ابھی نٸے نٸے ھی قدم رکھے تھے بچپن سے نوجوانی کے سفر میں ابھی تک اتنی ھی تبدیلی آٸی تھی کہ میری ہلکی ہلکی مونچھیں نکل آٸی تھیں اور آواز بھی بھاری ھونی لگی تھی جوانی کے جوش کا یہ عالم تھا کہ جذبات کی زیادتی کی وجہ سے ھر رات شلوار میں ٹینٹ بن جاتا جسے ختم کرنے کا کوٸی بھی طریقہ ابھی تک میرے علم میں نہیں تھا چونکہ ابھی تک میں مشت زنی سے واقف نہیں ھوا تھا سو بیچین پھرتا تھا کہ اس آگ کو کیسے ٹھنڈہ کروں انھی سوچوں میں سرگرداں پھرتا تھا کہ خدا کی کرنی کیا ھوٸی کہ پاپا کو کچھ کام ھوا مامو کے شھر تو بابا کہنے لگے کہ تم بھی ساتھ چلو ماموں کی طرف ھو آنا میں بھی ضروری سامان اور کچھ دنوں کے کپڑے پیک کر کے پاپا کے ساتھ چل پڑا اور کچھ گھنٹوں کی مسافت کے بعد ماموں کے شھر پنھنچے جہاں مجھے ماموں کے ہاں چھوڑ کر پاپا  کچھ دنوں میں واپس آنے کا کہہ کر اسی شھر کے ایک گاوں میں کام سے چلے گٸے جہاں ان کی پوسٹنگ ھوٸی تھی۔ اب میں آپ کو ماموں کی فیملی کے بارے میں بتاتا چلوں ان کی فیملی میں ان کی بیوی یعنی میری مامی، ان کي تين بيٹیاں انعم مریم اور شفا تھیں جن میں انعم سب سے بڑی اٹھارہ سال کی، دوسرے نمبر پر مریم سولہ سال کی جو کہ میری ھم عمر تھی اور سب سے چھوٹی شفا جو کہ ابھی محظ سات سال کی تھی، انعم معمولی شکل و صورت کی مالک اور خود میں گم سم رھنے والی لڑکی تھی جب کہ مریم اس سے یکسر مختلف، انتهائي جاذب نظر، خوبصورت تيکھے نين نقوش، گوری رنگت اور پرفیکٹ قد کاٹھ کی مالک لڑکی تھی جو کسی کو بھی پہلی نظر میں ہی بھا جاٸے تو جب میں ماموں کے گھر بڑے عرصے بعد پنھنچا تو انہوں نے بڑی خاطر تواضع کی اور مریم نے تو خاص طور پر خوشی کا اظھار کیا کہ ھم بچپن میں ساتھ کھیلتے تھے اور ایک دوسرے سے بہت طبیعت ملتی تھی سو ھم جلد ھی ایک دوسرے سے گھل مل گٸے البتہ انعم نے عام طرح سے ہی ٹریٹ کیا جیسے کہ میں نے بتایا وہ اس طرح ہی کا نیچر رکھتی تھی سو اسی طرح دو دن گزر گٸے میرا اور مریم کا سارا دن مزاق مستی میں گزرتا تھا، جون کا مهينہ تھا گرمیاں عروج پر تھیں پر اس سے زیادہ گرمی مجھ پر مریم کی نٸی ابھرتی جوانی دیکھ کر چڑھ رہی تھی سو باتوں باتوں اور مزاق مزاق میں اسے چھونے کا کوٸی موقع ھاتھ سے جانے نہیں دے رہا تھا اور وہاں اسے بھی محسوس ھو گیا تھا کہ آگ کی نوعیت غضب کی ھے اور اس کے مثبت اشارے میری ہلہ شیری میں اضافہ کر رھے تھے  ہماری نظروں کی گفتگو طول پکڑ رہی تھی اور پھر وہ مقام آیا جب مجھ میں برداشت نہ رھی اور میں نے موقع دیکھ کر اسے سب صاف بات کی کہ جو آگ میرے دل میں لگی ھے اسے تم ہی بجھا سکتی ھو اور اس کی طرف سے مثبت جواب ملنے کے بعد میں ھواوں میں اڑنے لگا، اب اگلی منزل ھم دونوں کا تنہاٸی میں ملنا تھی سو میں نے اسے کہا کہ ملاقات کی کوٸی سبیل کرو تو اس نے کہا کہ بہت جلد کریں گے !! اور اسی رات ایک غیر متوقعہ واقعہ پیش آیا، آدھی رات کو میں کمرے سے نکل کر صحن سے کچھ فاصلے پر بنے واشروم گیا جو کہ دو کمروں پر مشتمل تھا ایک نہانے کیلٸے واشروم اور اس کے ساتھ ٹواٸلٹ اور دونوں کے بیچ میں دیوار جو کہ اوپر اوپر سے کھلی ھوٸی تھی اور تھوڑی سی کوشش کے بعد ایک کمرے سے دوسری طرف جھانکا جا سکتا تھا ابھی مجھے وہاں کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے پاس والے واشروم میں ھلچل محسوس ھوٸی اور اگلے ہی لمحے مریم کی آواز سناٸی دی ´´دانش ميں آوں تمہاری طرف´´ یہ سننا تھا کہ میرے ٹٹے شاٹ ھو گٸے مجھے اس سے اس قدر بہادری کی توقع نہیں تھی ابھی میں نے جواب ہی نہیں دیا تھا کہ وہ گھوم کر ٹواٸلٹ کی طرف آ کر دروازہ کھولنے کا کہنے لگی میں نے بھی سوچا چلو آج دیرینہ خواھشات پوری کر ھی لیتا ھوں سو آگے بڑھ کر دروازہ کھول کر اسے اندر آنے دیا اور دروازہ بند کر لیا اب اندر آنے کے بعد یہ عالم تھا کہ مجھے جلد از جلد کچھ کرنے کا کیڑا تھا سو میں نے اسے شلوار اتارنے کا کہا اس نے اپنی قمیض کو اٹھا کر اپنے گلے اور ٹھوڑی کے بیچ پھنسا لیا اور دونوں ھاتھوں سے ناڑہ کھولنے لگی پر ھاٸے شومٸی قسمت اس کا ناڑہ کھلنے کا نام نہیں لے رہا تھا بڑی مشکل سے اسکا ناڑہ کھلا اور اس نے اپنی شلوار نیچے سرکا دی بس شلوار کا سرکنا اور اس کے گورے رانوں کا دکھنا تھا کہ میرے لن نے انگڑاٸیاں لینا شروع کر دیا اور بنا کسی دیر کے اکڑ کر تنبو بنا دیا میں نے ھاتھ بڑھا کر اس کی شلوار کو تھوڑا اور نیچے سرکایا دوستو اس کی گوری بالوں سے پاک پھدی کا نظارہ افففف توبہ اتنی معصوم چوت کہ میں مدھوش ھونے لگا میں نے اپنی شلوار اتاری جلدی سے کیونکہ کسی کے آ جانے کے خوف سے میں کانپ رہا تھا اور جلد از جلد سب کرنا چاھتا تھا سو اپنی شلوار اتار کر لن کو ھاتھ میں پکڑا شاید اسے میرے لن کی لمباٸی اور موٹاٸی کا اندازہ نہیں تھا اسی وجہ سے لن دیکھنے کے بعد اسکی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گٸیں تب مجھے احساس ھوا کہ اس معصوم حسینہ کو میں نے جانے کن کاموں میں لگا دیا بہرحال میں نے اپنا لن پکڑ کر اسے تھوڑا نیچے ھو کر لن کا ٹوپہ اس کی پھدی کے لپس کے درمیاں ٹچ کر دیا اففففف جب اس نے اپنی نرم گرم چوت کے لپس کے درمیاں پہلی بار لن محسوس کیا تو اس کی آنکھیں مزے کی شدت سے بند ھونے لگیں ادھر میرا بھی حال ایسا ھی تھا کہ ایک پری پیکر کی چوت سے لن جوڑ کر کھڑے ھونے کا احساس جان نکال دینے جیسا تھا لن نے چوت کا لمس پاتے ھی قطرہ قطرہ منی چھوڑنا شروع کر دیا جسے میں اس کی چوت کے لپس کے بیچ رگڑنے لگا پھر میں نے اسے ھپس سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اب میرے لن کا پریشر اس کی چوت کے اوپر پڑ رھا تھا اور میں اسے سینے سے لگاٸے اس کے نٸے ابھرتے ممے محسوس کر رھا تھا وقت کے قیمتی ھونے کا احساس مجھے بخوبی تھا سو بغیر وقت ضایع کٸے میں نے اسے گھوم جانے کو کہا اورپیچھے سے آ کر اس کی قمیض گانڈ سے اٹھاٸی اففففففف سفید کومل نرم گانڈ !!!! پہلی بار اس لذت سے آشنا ھو رہا تھا سو بغیر انتظار کے اسے پیٹھ پر زور دے کر جھکایا اور گھوڑی بنا کر اس کے ھپس کو کھول کر لنڈ کا ٹوپا اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دیا افففففففف اسکے ھپس جیسے ھی چھوڑے میرے لنڈ کا ٹوپہ اس کی ھپس کے بیچ پھنس گیا اب میری حماقت دیکھٸے کہ اناڑی ھونے کی وجہ سے مجھے تھوک تک لگانے کا خیال نہیں آیا اور اسکا یہ نتیجا نکلا کہ جیسے ھی میں نے اس کی قمر پکڑ کر زور لگایا لنڈ اندر جانے کی بجاٸے سلپ ھو کر اس کی ٹانگوں میں گھس گیا دوسری بار کوشش کی مگر وہی حالت ایک تو خوف مجھ پر طاری تھا اوپر سے اناڑی سو میں نے دوسرا طریقہ اختیار کیا اسے بازووں سے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا اور گانڈ کھول کر لن اس کے سوراخ پر رکھ کر زور لگایا زور لگانا تھا کہ لنڈ کا ٹوپہ اندر جاتے ھی وہ بھی لنڈ کے ساتھ ھی آگے چلی گٸی اور کنواری گانڈ میں سوکھا لن جانے کی تکلیف کے باعث وہ لنڈ نکالنے کی کوشش کرنے لگی پر میرا دماغ مدھوش لگا پڑا تھا سو میں اسے بازووں سے پکڑ کر پیچھے کھینچنے لگا پر اس نے زور لگا کر لن باھر نکال لیا اور لمبی سانسیں لینے لگی اور کہنے لگی افففف میری سانس رکنے لگی تھی سارا مزہ غارت ھوا پر اب مجھے کب منظور تھا کہ زبردستی اس کی گانڈ ماروں اور اسکی چینخیں میری ھڈی پسلی ایک کروا دیں سو مرتا کیا نہ کرتا میں نے اسے نارمل کیا اور گھما کر منہ اپنی طرف کر کے پھر سے لن پھدی کے لپس کے بیچ رکھ کر آھستہ آھستہ اوپر نیچے ھونے لگا لن کی رگڑ نے چوت کو گیلا کر دیا تھا اور مجھ پر مدھوشی چھانے لگی مگر میں اس کا کنوارہ پن لینے کے ارادے میں نہیں تھا کیوں کی پھدی سے پھدا بننے کے بعد اسکی کمسن چوت نے خون چھوڑنا تھا جو کہ مجھے منظور نہیں تھا سو یونہی اس کی گانڈ سے پکڑ کر چوت کے بیچ لن رگڑتا رھا اب رگڑنے کے بعد وہ بھی گرم ھونے لگی جب اس سے برداشت نہ ھوا تو اس نے اپنے پاٶں کھول دٸے اور لن کو بیچ میں لے کر پاوں بند کر دٸے لن کے گرد گرد نرم رانوں کے لمس دماغ میں گرمی بھر بھر رہی تھی اوپر سے اس نے لن کو بھینچ کر آگے پیچھے ھونا شروع کر دیا اور مزے سے میری سانسیں اکھڑنے لگیں اور مجھے لگا کہ میرے پیروں سے سب تواناٸی سمٹ کر لن میں آ رکی ھو اور اس کے آخری رگڑ نے  میرا کام تمام کر دیا میری آنکھیں بند ھوگٸیں منہ چھت کی طرف اٹھ گیا اور لن سے منی پچکاریوں کی صورت میں نکل کر اس کی رانوں سے ھوتا ھوا پیروں پر بہنے لگا ابھی میں مزے کی شدت سے باھر نہیں نکلا تھا کہ دروازے پر دستک ھوٸی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ھے ۔

Comments

Popular posts from this blog

Makan Malkin Aunty Ka Pyar